بسم اللہ کے بجائے نمبر ٧٨٦ استعمال کرنا




Language

Click below for languages:

 

بسم اللہ کے بجائے نمبر ٧٨٦ استعمال کرنا

⭕آج کا سوال نمبر ٣٣٩٧⭕

➡ بہت سے لوگ خطوط، کارڈز، موبائل میسجز، گھر کے باہر یا اندر وغیرہ میں ٧٨٦ لکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ بسم اللہ کا نمبر ہے۔

کیا یہ درست ہے؟

➡یہ کس نے اور کیوں شروع کیا؟

➡ کیا اس میں بسم اللہ کی برکت حاصل ہوتی ہے؟

➡باز کہتے ہیں کہ یہ شری رام یا شری کرشن کا نمبر ہے تو کیا یہ باہر والوں کا طریقہ ہے؟

🔵جواب🔵

حامدا ومصلیا ومسلما

حضرت مفتی نظام الدین اعظمی رحمۃ اللہ علیہ سابق مفتی دارالعلوم دیوبند، ہندوستان۔ تحریر کہتے ہیں کہ لفظ جلالہ (اللہ ) کے لام کو مکر شمار کر لیا جائے اور رحمن کے الف کو نہ شمار کیا جائے تو تعداد ۷۸۶ ہو جاتی ہے، پس اس عدد سے یقینا ذہن بسم اللہ کی جانب منتقل ہو سکتا ہے بلکہ اس عدد کو دیکھ کر یاسن کر بسم اللہ مکمل ذہن میں آجاتا ہے اور ہوسکتا ہے کہ کوئی زبان سے بھی کہدے تو ءہ عدد اس مقصد سے لکھنے کی غرض یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ہر خط کی عبارت کی ابتداء میں انتقال ذہنی بسم اللہ کی طرف ہو جائے اور بسم اللہ کا ادب بھی باقی رہے اس لئے بہت ممکن ہے کہ اس طریقہ کار سے بسم اللہ کہنے یا مستحضر فی الذہن کرنے کی جانب تلقین کی غرض سے یہ طریقہ چل پڑا اہو اور گر چہ یہ معلوم نہ ہوا کہ یہ طریقہ کب سے جاری ہوا

کچھ مضر نہ ہوگا بلکہ استحسان باقی رہے گا اور بعینہ بسم اللہ پڑھنے کی برکت اگر چہ حاصل نہ ہولیکن ذریعہ ضرور بن سکتا ہے اور چونکہ ادب کو زیادہ مشتمل ہے، اس لئے مذموم کہنا بھی محل تأمل ہوگا
فقط واللہ اعلم بالصواب

منتخب نظام الفتاوي ٣/٤٣٥

💠نوٹ:- ادب کی خاطر لکھنے کی گنجائش صرف اسی صورت میں ہوگی جب تحریر میں اس کے بعد کہیں بھی اللہ کا نام یا کوئی آیت یا حدیث کا ذکر نہ ہو ورنہ بے ادبی نہ وہ اس وجہ سےلکھنے کی کوئی گنجائش نہ ہوگی۔ بلکہ اسے ایک رسم سمجھا جائے گا، جس کا رواج دینا کراہت سے خالی نہیں ہے۔

👉🏼 حضرت مفتی یوسف لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ اس سلسلے میں فرماتے ہیں کہ بسم اللہ شریف کے نمبر ٧٨٦ ہیں، اسے لکھنے کا معمول بزرگوں سے ملتا ہے۔ غالباً اس کا رواج ہے بس لۓ ہوا ہوگا کہ خط عموماً پھاڑ کر پھینک دیۓ جاتے ہیں، جس کی وجہ سے بسم اللہ شریف کی بے حرمتی ہوتی ہے، اس بے عزتی سے بچنے کے لیے غالبا بزرگوں نے بسم اللہ شریف کے عدد لکھنا شروع کیا ہوگا، اس کو غیروں کی طرف منسوب کرنا غلط ہے۔ البتہ اگر بے ادبی کا اندشہ نہ ہو تو بسم اللّٰہ ہی لیکھنا بہتر ہے

📘آپ کے مسائل اور ان کا حل ٦/٣٤٨ نعیمیہ

👉🏼بندے کے پیرو مرشد، یادگار سلف حضرت اقدس مفتی احمد صاحب خانپوری دامت برکاتہم تحریر فرماتے ہے کہ یہ کوئی شرعی چیز نہیں ہے۔ اور اس طرح لکھنے سے خط کے شروع میں بسم اللہ لکھنے کا حق ادا‌ ہوا نہیں سمجھا جائے گا۔

📔 محمود الفتاوی ٥/٦٢٥

تینوں فتاویٰ کا خلاصہ : یہ ٧٨٦ ہے اگر بسم اللہ شریف کی بے حرمتی نہ کرنے کے لیے ایسی جگہ لکھا جائے جہاں بے حرمتی کا خطرہ ہو تو اس شرط پر لکھا جائے کہ اللہ اور رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا نام اس کے آگے کہیں بھی نہ لکھا ہوا ہو

جہاں بے ادبی ہونے کا خطرہ نہ ہو یا آگے اللہ کا نام ‌آ رہا ہو وہاں بسم اللہ ہی لکھنا چاہۓ

واللہ اعلم بالصواب

✍🏻 مفتی عمران اسماعیل میمن
🕌 استاذ دارالعلوم رام پورا، سورت، گجرات، انڈیا۔