عید میلاد النبی کی حقیقت اور شروعات
⭕آج کا سوال نمبر ۳۳۵۴⭕
عید میلاد النبی کیوں منائی جاتی ہے اور اس کی حقیقت کیا ہے۔سنا ہے کہ
میلاد سے مراد ہے پیدائش کا دن اور عید میلاد النبی کا مطلب ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے دن عید منانا، عید میلاد النبی منانے والوں کا کہنا ہے کہ 12 ربیع الاول کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت ہوئی تھی اور ان کی ولادت کا دن خوشی کا دن ہے اس لیے ہر سال اس دن کو بڑے جوش و خروش سے مناتے ہیں، نئے کپڑے پہنے جاتے ہیں گھروں میں مٹھائیاں اور پکوان بنائے جاتے ہیں اور ایک جلوس بھی نکالا جاتا ہے جس میں مائیک اور لاؤڈ اسپیکر پر نعرے لگاتے ہوئے شور شرابوں کے بیچ یہ خوشیاں مناتے ہیں، یہ کہاں تک صحیح ہے؟ اور قران اور حدیث میں اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟
🔵جواب🔵
حامدا ومصلیا ومسلما
عید میلاد النبی کو منانے کا ثبوت نہ تو کسی حدیث میں ملتا ہے اور نہ ہی قران کی کسی آیات میں عید میلاد النبی کا ذکر ہے تو پھر یہ وجود میں کہاں سے اور کیسے آیا؟
تاریخ کی کتابوں میں حوالے سے پتہ یہ چلا کہ عراق کے شہر موصول کا علاقہ اربل کا بادشاہ ملک مظفر ابو سعید نے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وفات کے 600 سال بعد سب سے پہلے اسلام میں اس نئی خرافات کو جنم دیا اور ربیع الاول کے مہینے میں اس کے حکم سے ایک محفل سجائی گئی جس میں دسترخوان سجایا گیا اور صوفیوں کو بلایا گیا پھر ڈھول تماشے اور ناچنا گانا ہوا جسے عید ملاد النبی کا نام دیا گیا،
📗البدایہ والنہایہ ١٦٠ ابن کثیر
اس بادشاہ کے بارے میں مورخ نے لکھا ہے کہ اسے دین کی سمجھ نہیں تھی اور یہ فضول خرچ انسان تھا،
📙انوار ساطعہ صفحہ ٢٦٧
اس کے پہلے تک قران اور حدیث سے ثابت صرف دو عید ہی تھی، مگر کچھ گمراہ لوگوں کی وجہ سے یہ تیسری عید کی شروعات ہوئی جس کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے،
حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں:- دین کے اندر نئی نئی چیزیں داخل کرنے سے باز رہو بلا شبہ ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے۔
📙ابو داؤد کتاب السنہ ٧٠٦٤
اس تیسری عید کو منانے کی شرعی حقیقت پر غور کریں تو عید میلاد النبی کو کبھی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ حیات میں نہیں منایا گیا اور نہ ہی کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے منانے کا حکم دیا اس تیسری عید کو صحابہ کرام رضی اللہ تعالی علیہم اجمعین میں سے کسی نے نہیں منایا اور نہ ہی کبھی اس عید کے وجود کی تصدیق کی، تابعین اور تبع تابعین رحمہ اللہ تعالی کے دور میں بھی کبھی کہیں اس عید کا ذکر نہیں ملتا اور نہ ہی اس زمانے میں بھی کسی نے اس عید کو منایا تھا ان تمام ثبوتوں سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ اسلام میں دو عیدوں عید الفطر اور عید الاضحی کے علاوہ کوئی تیسری عید نہیں ہے، یہ خرافاتی دماغ کی اُپج ہے جو کہ سراسر بدعت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا سب سے بہترین امر اللہ تعالی کی کتاب ہے اور سب سے بہتر طریقہ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا طریقہ ہے اور سب سے بدترین کام دین میں نئی نئی باتیں پیدا کرنا ہے اور ہر نئی بات گمراہی ہے۔
📘ابن ماجہ جلد ایک حدیث ٤٥
١٢ ربیع الاول کا دن حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دور حیات میں ٦٣ دفعہ ایا تھا حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت میں دو دفعہ آیا، تھا حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت میں ١٠ دفعہ ,حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت میں ١٢ دفعہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت میں چار دفعہ یہ دن آیا مگر پھر بھی کسی سے بھی عید میلاد النبی منانے کا ثبوت نہیں ہے جب ان کے جیسے شخصیتوں نے جن کے ایمان اور عشق ہم سے کہی زیادہ کامل تھے اور جو کتاب اللہ اور سنت رسول پر آج کے مسلمانوں سے کہیں زیادہ بلکہ سب سے زیادہ عمل کرنے والوں میں سے تھے کبھی اس دن کو نہیں منایا تو پھر تم کون ہوتے ہو دین میں نئی چیز ایجاد کرنے والے؟ اے سی بدعت کو زور شور سے انجام دینے والے لوگوں کے پیش کیے گئے کچھ ثبوتوں پر غور کرتے ہیں…..
کہہ دیجئے اللہ تعالی کے اس فضل اور رحمت پر لوگوں کو خوش ہونا چاہیے (سورہ یونس آیت 58)
ان لوگوں نے اس آیت میں رحمت سے مراد ولادت نبی تسلیم کر لیا جبکہ رحمت سے مراد اللہ تعالی کی کتاب قران ہے۔
خود مولانا احمد رضا خان صاحب کی ترجمہ کی ہوئی کنز الایمان کی تفسیر میں بھی اس سے قران مراد لیا گیا ہے ان کی تفسیر میں لکھا ہے حضرت ابن عباس و حسن و قتادہ رضی اللہ تعالی عنہم نے کہا کہ اللہ تعالی کے فضل سے اسلام اور اس کی رحمت سے قران مراد ہے ایک قول یہ ہے کہ فضل اللہ سے قران اور رحمت سے احادیث مراد ہے۔
📗کنز الایمان صفحہ ٤٠٤
📕تفسیر ابن عباس آیت ٥٨ سورہ یونس
اسی طرح اور بھی آیات ان کی طرف سے دلیل کے طور پر پیش کی جاتی ہیں، اور انہیں اللہ تعالی کے دن یاد دلاؤ سورہ ابراہیم آیت ٥
بے شک اللہ تعالی کا بڑا احسان ہے مسلمانوں پر کہ ان میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا
سورہ آل عمران ایت ١٦٤
حدیث بھی ثبوت کے طور پر بیان کی جاتی ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیر کے روزے کے متعلق پوچھا جاتا ہے تو وہ فرماتے ہیں کہ اس دنیا میں پیر کو ہی میری ولادت بھی ہوئی اور پیر کو ہی نزول قران کی ابتدا ہوئی ایسی نہ جانے کئی دلیلیں وہ لوگ پیش کرتے ہیں مگر کہیں بھی ولادت نبی کی بات نہیں ملتی نہ تو قران کی دلیل سے یہ واضح ہوتا ہے اور نہ ہی حدیث کی بات سے کچھ ایسا لگتا ہے پھر لوگوں نے اپنے مطلب کے حساب سے کہاں سے معنی نکالنا شروع کر دیا؟ جب بھی قران کی آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر نازل ہوتی تو آپ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کو تفصیل کے ساتھ سمجھاتے اور اس پر عمل کرنے کو کہتے تھے تو کیا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس تیسری عید کو اپنی عوام سے چھپا لیا تھا؟ یا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قران کی ان آیات کے مطالب نہیں سمجھ میں آیا تھا؟ نعوذ باللہ، جیسے کہ آج کل کچھ لوگوں نے قران سے اس عید کا مطلب نکال لیا ؟ چلۓ اگر اس وقت کسی وجہ سے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نہیں بھی بتا پائے تو پھر آپ کے صحابہ کو بھی یہ بات پتہ نہ چلی؟ ارے یہ تو وہ لوگ تھے جنہیں اگر چھوٹی سے چھوٹی بات بھی پتہ چلتی تو اس پر عمل کرنا شروع کر دیتے تھے پھر کیا یہ اتنی بڑی بات کو چھوڑ دیتے؟ وہ بھی جو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے جڑی ہو؟ ارے جاہلوں عقل کے گھوڑے دوڑاؤ اور خود ہی ان باتوں پر غور کرو کہ جس کام سے ہمارے نبی کا واسطہ نہیں صحابہ کرام کا واسطہ نہیں تابعین کا واسطہ نہیں اسے تم دین کے رہے ہو؟؟ یقینا تم سے بڑا گمراہ کوئی نہیں،اللہ تعالی فرماتے ہیں “اور ہم نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا”
📘 سورہ مائدہ ایت نمبر 3
پھر تمہیں کیا ضرورت آن پڑی کہ تم اس دین میں بگاڑ پیدا کرنے لگے؟
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ان بھٹکے ہوئے لوگوں کو راستہ دکھائیں اور ہم سب کو قران اور سنت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
واللہ اعلم بالصواب
✍🏻 مفتی عمران اسماعیل میمن حنفی
🕌 استاذ دار العلوم رام پورا سورت گجرات